کیا ترکی اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے جا رہا ہے؟

- سلمان راوی
- نمائندہ بی بی سی نیوز، دہلی
،تصویر کا ذریعہAnadolu Agency
چین اور ترکی نے سنہ 2017 میں شہریون کی حوالگی سے متعلق دو طرفہ معاہدے پر دستخط کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ‘کچھ مہاجرین’ اور ان ‘اویغور مسلمانوں’ کو واپس چین بھیجنے کی بات کی گئی ہے جن پر ‘دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے’ کا شبہ ہے۔
گذشتہ سنیچر کے روز چینی پارلیمنٹ نے حوالگی کے اس معاہدے کو منظور کر لیا ہے جبکہ ترکی کی پارلیمان نے ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے چین ترکی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اویغور مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تک ان کے ملک نے اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس معاہدے کو ابھی تک ترک پارلیمان نے منظوری نہیں دی ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں اس اقدام کی وسیع پیمانے پر مخالفت دیکھی جا رہی ہے۔
ترک اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کو اویغور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا چینی ہتھیار نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔
،تصویر کا ذریعہSOPA IMAGES
یورپ میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور بطور خاص جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے اویغور مسلمان رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ چین حوالگی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ترکی پر معاشی اور سفارتی دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان کے بقول اسی سبب چین کووڈ 19 کی ویکسین سینوویک کی پہلی کھیپ ترکی بھیجنے میں تاخیر کررہا ہے تاکہ پارلیمنٹ میں اس کی منظوری کے لیے رجب طیب اردوغان حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
اویغور مسلمانوں کے بارے میں کیا خدشات ہیں
انسانی حقوق کی تنظیم نورڈک مانیٹر نے بھی معاہدے کے مسودے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جبکہ دوسری جانب چائنا ہیومن رائٹس ڈیفنس کے ترجمان لیو لین نے برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبار ‘دی گارڈین’ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس معاہدے سے تارکین وطن مسلمانوں کو دوسرے ممالک سے چین بھیجے جانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے، جہاں واپسی کے بعد ان کو نظربندی اور اذیتوں کا سامنا ہوگا۔
سنہ 2018 میں جرمنی اور سویڈن کی حکومتوں نے الگ الگ قراردادیں منظور کیں اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک میں بسنے والے اویغور مہاجرین کو چین واپس نہیں بھیجیں گے۔
،تصویر کا ذریعہAnadolu Agency
اسی طرح یوروپی پارلیمنٹ نے دو قراردادیں منظور کیں ہیں اور یوروپی یونین کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے اویغور مسلمانوں کو چین واپس نہ بھیجیں۔ اسی طرح ملائیشیا نے بھی اویغور مسلمانوں کے حق میں ایک قرارداد منظور کی ہے۔
یوروپی یونین اور رکن ممالک کو یہ تشویش ہے کہ اگر اویغور مسلمان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا گیا تو وہ بھی چین کے صوبہ سنکیانگ میں ہونے والی ‘ثقافتی نسل کشی’ کا شکار ہوجائیں گے۔
چین پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سنکیانگ صوبے میں رہائش پذیر تقریبا دس لاکھ اویغور مسلمانوں کو ایک ‘حراستی کیمپ’ میں رکھے ہوئے ہے اور مختلف طریقوں سے ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، جس میں مذہب کی پابندی سے لے کر خواتین کی زبردستی نس بندی اور جبری مشقت تک شامل ہیں۔
چین ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ کہا ہے کہ ان کی پالیسیاں صرف اویغور مسلمانوں کو دہشت گردی سے دور رکھنے اور ان کی مالی ترقی کے لیے ہیں۔
اویغور مسلمان کے ترکی کے ساتھ تعلقات
ترکی ہمیشہ سے ہی چین کے اویغور اور ترک نسل کے مسلمانوں کو پناہ دیتا رہا ہے اور فی الحال ترکی میں مقیم اویغور اور ترک مسلمان مہاجرین کی تعداد تقریبا 50 ہزار بتائی جاتی ہے۔ یعنی کسی بھی ملک سے زیادہ اویغور مسلمان مہاجرین ترکی میں پناہ گزین ہیں۔
ترکی ہمیشہ سے ہی چین میں رہنے والے اویغور ترک مسلمانوں کے معاملے میں سنجیدہ رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دہلی میں واقع تھنک ٹینک ویویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے یتھارتھ کچیار کا کہنا ہے کہ ترکی اور اویغور مسلمانوں کے مابین تاریخی تعلقات ہیں اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبد العزیز نے سنہ 1873 میں چین کی کوئنگ سلطنت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلحہ بھیجا تھا۔
اس کے بعد سے مشرقی چین کے صوبہ سنکیانگ کے اویغور مسلمان قیادت اور پناہ کے لیے ہمیشہ ترکی پر منحصر کرتے رہے ہیں۔ سنہ 1949 میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد، ماؤزے تنگ نے چین کے اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔
اسی وقت سے بڑے پیمانے پر اس صوبے سے اویغور اور ترک نسل کے مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا اور انھوں نے ہی ترکی میں سیاسی پناہ لی۔ امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھی اویغور مسلمانوں کو ترکی میں پناہ مانگنے میں مدد فراہم کی۔ ترکی نے بھی انھیں اپنی شہریت دے دی۔
ترکی کے اکسرائے اور زیتونبرنو وہ علاقے ہیں جہاں سنہ 1950 کی دہائی سے آنے والے اویغور مسلمان مہاجرین آباد ہیں۔
رواں سال مئی کے مہینے میں امریکہ میں ترکی کے سفیر سردار کیلک نے ترکی اور اویغور مسلمانوں کے ثقافتی اور نسلی تعلقات کو دہرا دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تعلقات ان کے ملک کے لیے بہت اہم ہیں۔
لیکن کچھ سالوں سے چین اور ترکی ایک دوسرے کے قریب آنے لگے ہیں۔ اتنے قریب آئے کہ ترکی پر الزام لگنا شروع ہو گیا کہ وہ ان اویغور مسلمان مہاجرین کو چین کے حوالے کر رہا ہے جن پر چین میں دہشت گردی کے الزامات ہیں۔
اس حوالگی کے معاہدے سے کیا ہوسکتا ہے؟
اگرچہ ترکی ان مہاجرین کو براہ راست چین کے حوالے نہیں کرتا تاہم یہ الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ وہ انھیں تاجکستان بھیجتا ہے جہاں سے چین کو ان کی حوالگی آسان ہوجاتی ہے۔
دوسری طرف اویغور مسلمانوں کے لیے ترکی کی شہریت لینا دن بدن مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
ترکی میں مقیم بہت سے اویغور مسلمانوں کا الزام ہے کہ انھیں چین سے پولیس فون پر دھمکیاں دیتی ہے کہ اگر انھوں نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آواز بلند کرنا بند نہیں کیا تو سنکیانگ میں ان کے رشتہ داروں پر ظلم کیا جائے گا۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے جرمنی میں مقیم اویغور ورلڈ کانگریس کے دلذات رکست نے کہا کہ اس حوالگی کے معاہدے سے ان اویغور مسلمانوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے جنھیں ابھی تک ترکی کی شہریت نہیں ملی ہے۔
انھوں نے ترکی کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاہدے کو اویغور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا ذریعہ نہ بننے دیں۔
Source link
International Updates by Focus News